پتا تو چلے فوجی عدالتوں نے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا ۔۔سپریم کورٹ

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جسٹس، جسٹس شاہد وحید نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ہمیں پتا تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے؟
نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نے اپیل پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ عید پر 20 ملزم رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں، متفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کرائی ہے۔جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا رہا ہونے والے ملزموں کے خلاف اب کوئی کیس نہیں ہے؟۔اعتزاز احسن نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ان ملزموں کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کئے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے۔
جسٹس امین الدین نے دریافت کیا کہ آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی فہرست میں ہے؟ اعتزاز احسن نے بتایا جی وہ اس فہرست میں شامل ہے۔
درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بنچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بنچ کی تشکیل کے لئے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔اس موقع پر اعتزاز احسن اور دیگر وکلا نے عدالت سے فیصلے ریکارڈ پر لانے کی استدعا کردی، وکلا نے مؤقف اپنایا کہ 20 ملزموں کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے وہ ریکارڈ پر لائے جائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں۔
واضح رہے کہ 25 مارچ سماعت پر سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔