جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے گھر بیٹھ جانا چاہئے۔۔ چیف جسٹس

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہئے، گھر بیٹھ جائے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے خط پر ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بنچ کا حصہ ہیں۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا لکھا ہوا اضافی نوٹ پڑھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، وفاقی حکومت الزامات کا جواب دے، وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے کہ مداخلت نہیں ہو رہی۔اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کیلئے کل تک کا وقت مانگ لیا۔ ، وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیراعظم سے بھی بات کرنی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے،اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لئے دے دی گئی۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو کتناوقت چاہئے ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک کا وقت دے دیں۔
پاکستان بار کونسل کے وکیل نے دلائل دیئے کہ چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات چاہتے ہیں، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔ دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں،تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔ بار کی تجویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہئے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018/19 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا، لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں، 76سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے، ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہئے۔
چیف جسٹس نے اس پر کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہئے، کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہئے، اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہئے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔جسٹس اطہر نے کہا کہ صرف میں نہیں اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہ بات کہی ہے، حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کیساتھ کھلواڑ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عوام کو حقیقت بتانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاےئے ہمیں ملی بھگت کا اعتراف کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے جوابا کہا اگر ملی بھگت ہے تو پھر بنچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ ہم 45 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔ اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے،اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔